Saturday 24 July 2021

حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کی نصیحت

 *حضور صدرالشریعۃ علیہ الرحمۃ کی نصیحت*


(درس نظامی والوں کے لئے)


کسی شخص کے تصرفات قولیہ روک دینے کو "حجر" کہتے ہیں۔....... 

حجر کے اسباب تین ہیں۔ نابالغی، جنون، رقیت.

 نتیجہ یہ ہوا کہ آزاد عاقل بالغ کو قاضی محجور نہیں کرسکتا ہاں اگر کسی شخص کے تصرفات کا ضرر عام لوگوں کو پہنچتا ہو تو اس کو روک دیا جائے گا. مثلا طبیب جاہل؛ کہ فن طب میں مہارت نہیں رکھتا اور علاج کرنے کو بیٹھ جاتا ہے لوگوں کو دوائیں دے کر ہلاک کرتا ہے۔ آج کل بکثرت ایسا ہوتا ہے کہ کسی شخص سے یا مدرسہ میں طب پڑھ لیتے ہیں اور علاج و معالجہ سے سابقہ بھی نہیں پڑتا۔ دو تین برس کے بعد سند طب حاصل کر کے مطب کھول لیتے ہیں اور ہر طرح کے مریض پر ہاتھ ڈال دیتے ہیں مرض سمجھ میں آیا ہو یا نہ آیا ہو نسخے پلانا شروع کردیتے ہیں۔وہ اس کہنے کو کسر شان سمجھتے ہیں کہ میری سمجھ میں مرض نہیں آیا ایسوں کو علاج کرنا کب جائز و درست ہے۔ *علاج کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مدت دراز تک استاد کامل کے پاس بیٹھے اور ہر قسم کا علاج دیکھے اور استاد کی موجودگی میں علاج کرے اور طریق علاج کو استاد پر پیش کرتا رہے جب استاد کی سمجھ میں آجائے کہ یہ شخص اب علاج میں ماہر ہوگیا تو علاج کی اجازت دے۔*

*_آج کل تعلیم اور امتحان کی سندوں کو علاج کے لیے کافی سمجھتے ہیں مگر یہ غلطی ہے اور سخت غلطی ہے۔_* 

*اسی کی دوسری مثال جاہل مفتی ہے کہ لوگوں کو غلط فتوے دے کر خود بھی گمراہ و گنہگار ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی کرتا ہے۔* طبیب ہی کی طرح آج کل مولوی بھی ہو رہے ہیں کہ جو کچھ اس زمانہ میں مدارس میں تعلیم ہے وہ ظاہر ہے اول تو درس نظامی جو ہندوستان کے مدارس میں عموماجاری ہے اس کی تکمیل کرنے والے بھی بہت قلیل افراد ہوتے ہیں عموما کچھ معمولی طور پر پڑھ کر سند حاصل کر لیتے ہیں اور *اگر پورا درس بھی پڑھا تو اس پڑھنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اب اتنی استعداد ہوگئی کہ کتابیں دیکھ کر محنت کر کے علم حاصل کرسکتا ہے* ورنہ درس نظامی میں دینیات کی جتنی تعلیم ہے ظاہر کہ اس کے ذریعہ سے کتنے مسائل پر عبور ہوسکتا ہے مگر ان میں اکثر کو اتنا بیباک پایا گیا ہے کہ اگر کسی نے ان سے مسئلہ دریافت کیا تو *_یہ کہنا ہی نہیں جانتے کہ مجھے معلوم نہیں یا کتاب دیکھ کر بتاؤں گا کہ اس میں وہ اپنی توہین جانتے ہیں_* اٹکل پچو، جی میں جو آیا کہہ دیا۔ *صحابہ کبار و ائمہء اعلام کی زندگی کی طرف اگر نظر کی جاتی ہے تومعلوم ہوتا ہے کہ باوجود زبردست پایہء اجتہاد رکھنے کے بھی وہ کبھی ایسی جراء ت نہیں کرتے تھے جو بات نہ معلوم ہوتی اس کی نسبت صاف فرما دیا کرتے کہ مجھے معلوم نہیں۔*


 *_ان نو آموز مولویوں کو ہم خیر خواہانہ نصیحت کرتے ہیں کہ تکمیل درس نظامی کے بعد فقہ و اصول و کلام و حدیث و تفسیر کا بکثرت مطالعہ کریں اور دین کے مسائل میں جسارت نہ کریں جو کچھ دین کی باتیں ان پر منکشف و واضح ہو جائیں ان کو بیان کریں اور جہاں اشکال پیدا ہو اس میں کامل غور و فکر کریں خود واضح نہ ہو تو دوسروں کی طرف رجوع کریں کہ علم کی بات پوچھنے میں کبھی عار نہ کرنا چاہیے۔_*


(بہارِ شریعت،رضوان سعیدی ایپ، پارٹ15، پیج13 )


✍🏻 *انتخاب و ترسیل*:

شعبۂ نشر و اشاعت 

*تنظیم تبلیغ اسلام*، مالیگاؤں

کوکن اور مہاراشٹر کے مسمانوں کی مدد کیجیے

 صرف اللہ نے رحم فرمایا اور جانیں بخش دیں، 

پانی اتر چکا ہے، دوسرا دن ہے، لیکن ہر طرف قیامت کا منظر ہے، ہمارے شہر مہاڑ میں کوئی ایک گھر سلامت نہیں، کوئی ایک دوکان بچی نہیں، 

خود ہماری دوکان میں بھی پانی نے تباہی مچائی 

پانی اترنے کے بعد کا جو منظر ہے اس کے لیے صرف یہی کہہ سکتاہوں کہ ناقابل بیان ہے، بجلی اور پانی کا تو پتا نہیں ناہی نیٹورک ہے، ابھی دسیوں دن تو صرف لائن درست کرنے میں لگ جائیں گے، جانی نقصانات کا ابھی کوئی حتمی ڈاٹا نہیں ہے، لیکن ان کی تفصیلات بھی دردناک ہے، مہاڑ شہر میں نکل جائیے تو لگتاہے کوئی عذاب کوئی تباہی غضبناک ہو کر گزری ہے، ہزاروں کروڑ روپے کی املاک برباد ہوگئی ہیں، دوکانیں جڑ سے اکھڑ گئی ہیں، گاڑیاں جیسے لگتا ہے اٹھا اٹھا کر پٹخ دی گئی ہیں، میرے سامنے سے کئی ہزار کلو وزن کے ٹیمپو اور کاریں کاغذ کی طرح بہتی رہیں، اور اب مارکیٹ میں ڈھونڈنے پر ایک دوا کی ٹیبلٹ بھی نہیں مل رہی، انڈا پانی، تیل راشن برائے نام بھی نہیں ہے، راشن اور دوائیوں کی ساری دوکانیں بہہ گئی ہیں، میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھا ہے کہ، ہمارے یہاں کوئی امدادی ٹرک آتاہے کچھ راشن کا سامان لے کر تو اچھے خاصے گھرانے والے بھی جھپٹ پڑتے ہیں اور چھین بٹور کے اپنے گھر والوں کے لیے کھانا پانی لے جاتے ہیں، 

دو سال سے لاکڈاؤن کی مار جھیلتے رہنے کے بعد یہ تباہی بھی مقدر میں تھی جس کی اذیت ناقابل برداشت ہے اور اس سے ابھرنے میں سالوں لگ جائیں گے

اس سے پہلے، 

جس غضبناک انداز میں پانی تباہی مچارہا تھا اور اونچی آبادیاں بھی ندیوں میں تبدیل ہوچکی تھیں اس میں بچنے کی امید بہت مشکل ہوگئی تھی 

 ہم لوگ جہاں رہتےہیں وہاں چونکہ ہم لوگوں کے مکان کا محل وقوع بلندی پر ہے، اسلئے سخت سیلابی صورتحال میں بھی اب تک پانی نہیں آیا، اگر آتا بھی تھا تو برائے نام بلڈنگ کی پارکنگ کو چھوتے نکل جایا کرتا تھا، لیکن اس دفعہ، پارکنگ میں پانی بھر کے گراونڈ فلور پر بھی پورا بھر گیا، دونوں زینے پار کرکے فرسٹ فلور پر داخل ہونے لگا، اور تیزی سے بڑھنے لگا، کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ ایسا بھی ہوسکتاہے، پاس کی مسجد جہاں کبھی پانی نہیں بھرتا تھا وہاں تو پہلا منزلہ ڈوب ہی گیا، دماغ دنگ رہ گیا اور ہوش اڑنے لگے تھے جلدی سے 

 ہم لوگ کھانے پینے اور پہننے کا جوکچھ سامان ساتھ لے سکتے تھے وہ لے کر والدین کے ساتھ چھت پر چڑھ گئے 

 رات بھر دردناک ماحول تھا، کبھی کہیں کبھی کہیں اور سے عورتوں اور بچوں کے چیخنے چلانے کی آواز آنے لگتی، جو لوگ دوسرے منزلے پر پناہ لیے ہوئے تھے جب ان تک بھی پانی پہنچنے لگا تو وہ حواس باختہ ہوکر مدد کے لیے پکارنے لگتے، جانوروں کی صورتحال تو مزید دل چیرنے والی تھی، کیونکہ ہم ان کی مدد نہیں کرسکتے تھے، میں نے جب اپنے گھر کی کھڑی کھولی تو سامنے جیسے سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا اور ایک گائے میری کھڑکی کے سامنے جان بچانے کے ليے ہاتھ پیر مار رہی تھی، یہ منظر الم انگیز تھا 


 بہرحال، میں ابھی اپنے گھر سے دور پانی کی تلاش میں نکلا ہوں، تقریباﹰ ۲۰ کلومیٹر آگے پہنچنے کےبعد نوٹیفکیشن آنے لگا تو میں ایک جگہ ٹھہر کر یہ احوال لکھ رہا ہوں 

*کئی سارے میسج کئی لوگوں کی طرف سے ملے ہیں کہ وہ ریلیف کا کام کرنا چاہ رہےہیں، سب کو ایک ہی جواب دوں گا کہ اسوقت اگر آپ کوکن والوں کی مدد کرنا چاہ رہے ہیں تو اپنی تنظیمی سیاسی و سماجی وابستگیوں سے اوپر اٹھ کر یہاں آئیے، اور بحیثیت ایک انسان دوسرے انسان کی مدد کیجیے،* راشن کے سامان پہنچائیے، یہاں پر آپ ممبئی سے پینے کے پانی کی بوتلیں اپنی گاڑیوں میں ڈال کر لائیے اور کسی محلے یا چوراہے پر کھڑے ہوجائیے وہ پانی ختم ہوجاے گا، سیلاب کی وجہ سے گندگی کا ڈھیر ہے اور سرکاری امداد اور کاموں کا کہیں کوئی پتا نہیں ہے، ہسپتال اور بازار بند نہیں ہوئے ہیں وہ ختم ہوگئے ہیں، آپ اینٹی بایوٹک دوائیاں لے کر آئیے، آپ ایک گاڑی میں کچھ ڈاکٹروں کو لے کر دوائیوں کےساتھ یہاں آئیے اور اطراف کے دیہاتوں میں پھیل جائیے، 

آپ اس طرح کام کریں گے تو ہمارے علاقوں میں زیادہ بہتر طورپر کام کرسکیں گے، 

 ہمارے مہاڑ سے لیکر ہمارے دوسرے شہر چپلون تک  احباب انسانیت ایک قیامت سے گزر رہےہیں، بازآبادکاری میں نجانے کتنا وقت لگ جاے گا، بدحالی کا ایسا وقت کبھی سنا ہی نہیں کبھی دیکھا ہی نہیں ۔ 

میں کوشش کررہاہوں کہ دو ایک روز میں والدین کو مطمئن کرکے یہاں سے ممبئی پہنچ جاوں اور وہاں سے نیٹورک میں رہ کر کوئی منظم ترتیب راحت کی جاری کروا سکوں، کیونکہ یہاں تو میں مفلوج ہوں پوری طرح، اور پتا بھی نہیں ہے کہ لوگ کس رخ پر کام کررہےہیں، اور ہمارے کارواں کے ممبئی و دیگر شہروں میں موجود ذمہ داروں اور دوستوں سے کوئی رابطہ بھی نہیں ہے، ناہی اور دوستوں اور قارئین تک کوئی رسائی، 

سب کو سلام اور دعاؤں کی درخواست ہے، جلد رابطے میں آنے کی کوشش کرتاہوں، ان شاءالله 

سیلاب کےبعد پھیلنے والی گندگیوں اور بیماریوں سے اللہ سب کی حفاظت فرمائے، کیونکہ گندگی ہٹانے کا اور ملبہ منتقل کرنے کا کوئی سرکاری کام ہو نہیں رہاہے، این ڈی آر ایف کی ٹیموں کا کام اتنا ہی ہے جتنا آپ نے فوٹو دیکھا ہوگا، میں گراؤنڈ سے آپکو اب تک کی رپورٹ بتارہا ہوں کہ سب سے بھدا مذاق ہے کہ سرکاریں کام کررہی ہوں گی، ویسے بھی نکمی سرکاروں سے ہمیں کوئی امید نہیں ہے، سرکاری کام اپنی فطرت کےمطابق سیاستاً جاری ہے۔


سب سے پہلی ضرورت ہے دعا کی_


✍: سمیع اللّٰہ خان

24 جولائی 

ksamikhann@gmail.com