*حضور صدرالشریعۃ علیہ الرحمۃ کی نصیحت*
(درس نظامی والوں کے لئے)
کسی شخص کے تصرفات قولیہ روک دینے کو "حجر" کہتے ہیں۔.......
حجر کے اسباب تین ہیں۔ نابالغی، جنون، رقیت.
نتیجہ یہ ہوا کہ آزاد عاقل بالغ کو قاضی محجور نہیں کرسکتا ہاں اگر کسی شخص کے تصرفات کا ضرر عام لوگوں کو پہنچتا ہو تو اس کو روک دیا جائے گا. مثلا طبیب جاہل؛ کہ فن طب میں مہارت نہیں رکھتا اور علاج کرنے کو بیٹھ جاتا ہے لوگوں کو دوائیں دے کر ہلاک کرتا ہے۔ آج کل بکثرت ایسا ہوتا ہے کہ کسی شخص سے یا مدرسہ میں طب پڑھ لیتے ہیں اور علاج و معالجہ سے سابقہ بھی نہیں پڑتا۔ دو تین برس کے بعد سند طب حاصل کر کے مطب کھول لیتے ہیں اور ہر طرح کے مریض پر ہاتھ ڈال دیتے ہیں مرض سمجھ میں آیا ہو یا نہ آیا ہو نسخے پلانا شروع کردیتے ہیں۔وہ اس کہنے کو کسر شان سمجھتے ہیں کہ میری سمجھ میں مرض نہیں آیا ایسوں کو علاج کرنا کب جائز و درست ہے۔ *علاج کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مدت دراز تک استاد کامل کے پاس بیٹھے اور ہر قسم کا علاج دیکھے اور استاد کی موجودگی میں علاج کرے اور طریق علاج کو استاد پر پیش کرتا رہے جب استاد کی سمجھ میں آجائے کہ یہ شخص اب علاج میں ماہر ہوگیا تو علاج کی اجازت دے۔*
*_آج کل تعلیم اور امتحان کی سندوں کو علاج کے لیے کافی سمجھتے ہیں مگر یہ غلطی ہے اور سخت غلطی ہے۔_*
*اسی کی دوسری مثال جاہل مفتی ہے کہ لوگوں کو غلط فتوے دے کر خود بھی گمراہ و گنہگار ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی کرتا ہے۔* طبیب ہی کی طرح آج کل مولوی بھی ہو رہے ہیں کہ جو کچھ اس زمانہ میں مدارس میں تعلیم ہے وہ ظاہر ہے اول تو درس نظامی جو ہندوستان کے مدارس میں عموماجاری ہے اس کی تکمیل کرنے والے بھی بہت قلیل افراد ہوتے ہیں عموما کچھ معمولی طور پر پڑھ کر سند حاصل کر لیتے ہیں اور *اگر پورا درس بھی پڑھا تو اس پڑھنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اب اتنی استعداد ہوگئی کہ کتابیں دیکھ کر محنت کر کے علم حاصل کرسکتا ہے* ورنہ درس نظامی میں دینیات کی جتنی تعلیم ہے ظاہر کہ اس کے ذریعہ سے کتنے مسائل پر عبور ہوسکتا ہے مگر ان میں اکثر کو اتنا بیباک پایا گیا ہے کہ اگر کسی نے ان سے مسئلہ دریافت کیا تو *_یہ کہنا ہی نہیں جانتے کہ مجھے معلوم نہیں یا کتاب دیکھ کر بتاؤں گا کہ اس میں وہ اپنی توہین جانتے ہیں_* اٹکل پچو، جی میں جو آیا کہہ دیا۔ *صحابہ کبار و ائمہء اعلام کی زندگی کی طرف اگر نظر کی جاتی ہے تومعلوم ہوتا ہے کہ باوجود زبردست پایہء اجتہاد رکھنے کے بھی وہ کبھی ایسی جراء ت نہیں کرتے تھے جو بات نہ معلوم ہوتی اس کی نسبت صاف فرما دیا کرتے کہ مجھے معلوم نہیں۔*
*_ان نو آموز مولویوں کو ہم خیر خواہانہ نصیحت کرتے ہیں کہ تکمیل درس نظامی کے بعد فقہ و اصول و کلام و حدیث و تفسیر کا بکثرت مطالعہ کریں اور دین کے مسائل میں جسارت نہ کریں جو کچھ دین کی باتیں ان پر منکشف و واضح ہو جائیں ان کو بیان کریں اور جہاں اشکال پیدا ہو اس میں کامل غور و فکر کریں خود واضح نہ ہو تو دوسروں کی طرف رجوع کریں کہ علم کی بات پوچھنے میں کبھی عار نہ کرنا چاہیے۔_*
(بہارِ شریعت،رضوان سعیدی ایپ، پارٹ15، پیج13 )
✍🏻 *انتخاب و ترسیل*:
شعبۂ نشر و اشاعت
*تنظیم تبلیغ اسلام*، مالیگاؤں